Parveen Shakir Poetry, Saghar Siddiqui Gazals
Parveen Shakir is famous poetess among the poets. Her poetry is deep and meaningful. I have collected Parveen Shakir Poetry from different places for you. If you are searching for Parveen Shakir Poetry here you can read her best gazals and poetry.
ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گُل ہیں نہ غُنچے نو بُوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گُماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بُڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لُوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے
امیرؔ مینائی
دل و نگاہ پہ کس طور کے عذاب اُترے
وہ ماہتاب ہی اُترا،نہ اُس کے خواب اُترے
کہاں وہ رُت کہ جبینوں پہ آفتاب اُترے
زمانہ بیت گیا ان کی آب و تاب اُترے
میں اُس سے کُھل کے ملوں سوچ کا حجاب اُترے
وہ چاہتا ہے مری رُوح کا نقاب اُترے
اُداس شب میں کڑی دوپہر کے لمحوں میں
کوئی چراغ کوئی صُورتِ گلاب اُترے
کبھی کبھی ترے لہجے کی شبنمی ٹھنڈک
سماعتوں کے دریچوں پہ خواب خواب اُترے
فصیلِ شہرِ تمنا کی زرد بیلوں پر
تراجمال کبھی صُورت سحاب اُترے
تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھی
نوید ہو کہ بدن سے پُرانے خواب اُترے
سپردگی کا مجسم سوال بن کے کِھلوں
مثالِ قطرہ ءِ شبنم ترا جواب اُترے
تری طرح ، مری آنکھیں بھی معتبر نہ رہیں
سفر سے قبل ہی رستوں میں وہ سراب اُترے
پروین شاکر
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے،
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسن
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں
محسن نقوی
جُھک کے چلتا ہوں کہ قدّ اُس کے برابر نہ لگے
دوسرا یہ کہ اُسے راہ میں ٹھوکر نہ لگے
یہ ترے ساتھ تعلّق کا بڑا فائدہ ہے
آدمی ہو بھی تو اوقات سے باہر نہ لگے
نیم تاریک سا ماحول ہے درکار مجھے
ایسا ماحول جہاں آنکھ لگے ۔۔۔۔ ڈر نہ لگے
ماؤں نے چومنے ہوتے ہیں بریدہ سَر بھی
اُن سے کہنا کہ کوئی زخم جبیں پر نہ لگے
یہ طلب گار نگاہوں کے تقاضے ہر سُو
کوئی تو ایسی جگہ ہو جو ‘ مجھے گھر نہ لگے
یہ جو آئینہ ہے’ دیکھوں تو خلا دِکھتا ہے
اِس جگہ کچھ بھی نہ لگواؤں تو بہتر نہ لگے؟
تم نے چھوڑا تو کسی اور سے ٹکراؤں گا مَیں
کیسے ممکن ہے کہ اندھے کا کہیں سَر نہ لگے
عُمیـــر نجمــی
This one of the famous Gazal of Parveen Shakir
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
پروین شاکر
اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں
ہم پہ ہی ختم نہیں مسلک شوریدہ سری
چاک دل اور بھی ہیں چاک قبا اور بھی ہیں
کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں
میرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں
سر سلامت ہے تو کیا سنگ ملامت کی کمی
جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں
منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں
ساحر لدھیانوی
عطا جسے ترا عکسِ جمال ہوتا ہے
وہ پھول سارے گلستاں کا لال ہوتا ہے
تلاش کرتی ہے سائے تمہارے آنچل کے
چمن میں بادِ صبا کا یہ حال ہوتا ہے
رہِ مجاز میں ہیں منزلیں حقیقت کی
مگر یہ اہلِ نظر کا خیال ہوتا ہے
یہ واردات بھی اب دل پہ روز ہوتی ہے
مسرتوں میں بھی ہم کو ملال ہوتا ہے
بہار فطرتِ صیّاد کی کہانی ہے
کہ اس کے دوش پہ پُھولوں کا جال ہوتا ہے
یہ بکھرے بکھرے سے گیسُو تھکی تھکی آنکھیں
کہ جیسے کوئی گُلستاں نڈھال ہوتا ہے
جواب دے نہ سکیں جس کا دو جہاں ساغرؔ
کسی غریب کے دل کا سوال ہوتا ہے
ساغرؔ صدیقی