Gul-e-Gulzar is a captivating novel that explores the deep bond of friendship, love, betrayal, and trust. It follows the intertwined lives of two friends, Gul and Gulzar, whose relationship faces unexpected challenges and heartbreaks. Filled with emotional twists, powerful characters, and unforgettable moments, this novel captures the true essence of loyalty and the pain of broken promises. A story that reminds us how love and friendship can both heal and destroy.
Gul E Gulzar Novel
عورت میں حیا نہ ہو تو وہ شعلہ اور چنگاری بن کر جانے کتنے گھروں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے وہ بھی ایک فتنہ
ایک قیامت تھی وہ حسن کی دیوی اتنی سفاک تھی کہ ہزاروں دلوں کو پیروں تلے روند کر ہنستی اور گزر جاتی
اس کے خواب بہت بلند تھے وہ نہ صرف لوگوں کے دلوں پر راج کرنا چاہتی تھی بلکہ مملکت کے اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی تھی پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسے حکومت کی خواہش نہ رہی اس نے تو جس دل پر راج کرنے کا خواب دیکھا تھا، اسکی ساتھ کی تمنا اسے لے ڈوبی
سلطان غیاث الدین تغلق کے عہد میں کئی اہم کرداروں نے اپنا حصہ ڈالا جن میں جونا خان اور کلپنا کے نام ہمیشہ تاریخ کے صفحات پر زندہ رہیں گے
قلعہ احمد آباد ایک یادوں کا پرستان ہے۔ اسے دیکھ کر ذہن فوراً ماضی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کے در و دیوار پر تاریخ کے اوراق نازل ہو رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ قلعہ کتنے راجاؤں اور بادشاہوں کے زوال واقبال کی کروٹیں دیکھ چکا ہے۔
Gul E Gulzar Novel episode 1
قلعے کے اندر ٹہلتے ٹہلتے قدم بہ قدم تاریخ کی کوئی نہ یاد راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ بلند و بالا دیواروں، بوسیدہ محرابوں ، خمیدہ چھتوں اور سنسان در بچوں کو دیکھ کر دماغ مبہوت ہو جاتا ہے۔
قلعے کے طویل و عریض باغوں میں ہوا کے اسرار بھرے سر سراتے جھونکے ان کہی داستانیں سناتے ہیں۔ رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ کر بے ساختہ خیال آتا ہے کہ کسی بوڑھی سرزمین کے نیچے نہ جانے کیسے پری چہرہ لوگ دفن ہیں جو اب پھولوں کی شکل میں سر نکال کر تاریخ کے ویرانے کو حیرت سے تک رہے ہیں ۔
یہ 1295ء کا زمانہ تھا راجا کرن کی حکومت تھی لیکن قلعہ احمد آباد مین راجا کرن سے زیادہ دو بہن بھائیوں کا نام ضرور گونج رہا تھا بھائی کا نام کپور اور بہن کا نام کلپنا تھا شکل وصورت کے لحاظ سے دونوں بہن بھائی جس قدر خوبصورت تھے عمل کے اعتبار سے اتنے ہی خبیث ، بلکہ مثل ابلیس تھے بھائی فتنہ تھا تو بہن قیامت تھی۔
کلپنا کا اونچا قد، سڈول بدن ، سرخ و سفید رنگ، لمبی لمبی بل کھاتی ہوئی زلفیں اور فتے جگاتی ہوئی چال سب کے ہوش و حواس لوٹ کر لے جاتی تھی اس کی بڑی بڑی آنکھوں کے آتش کدے میں نہ جانے کتنے سور ماؤں کے ارمان جھلس چکے تھے عورت میں حیا نہ ہو تو دوزخ کی چنگاری بن جاتی
ہے کلپنا کو اپنے حسن کا نشہ تو ضرور تھا ہی مگر اس میں حیا نہیں تھی یہی یہی وجہ تھی کہ وہ شعلہ بن گئی تھی بلا کی چالاک اور بے باک تھی وہ کسی کی ہوس کا لقمہ تو نہیں بنی تھی البتہ اسے دوسروں کو ستانے جلانے اور تڑپانے میں بڑا مزہ آتا تھا وه روزانہ سر شام قلعے کے پائیں باغ میں آجاتی اور مورنی کی طرح ایک سرے سے سرے سرے تک بجلیاں گراتی ہوئی نکل جاتی تھی
بڑے بڑے پنڈت، امیر، وزیر اور راج کمار اسے دیکھ کر دل تھام کر رہ جاتے تھے وہ بھی اپنی لانبی لانبی پلکیں اٹھا کر پوری مشانی سے نگاہوں کے تیر چلاتی اور دلوں کو چھلنی کرتی چلی جاتی تھی۔
راجا کرن کی نظریں ایک مدت سے کلپنا کی طرف لگی ہوئی تھیں مگر وہ بزدل اور عیاش فطرت انسان تھا۔
اپنی رانیوں سے بہت ڈرتا تھا اس کی جوانی بڑھاپے کی سرحد پر قدم رکھ چکی تھی مگر دل آوارہ لڑکے کی طرح منچلا تھا وہ دیوالی کی رات تھی جب جھونپڑوں سے لے کر محلوں تک گھی کے چلتے ہوئے دیے اپنی بہار دکھا رہے تھے رنگ و نکہت کی محفلیں جمی ہوئی تھیں ۔
ادھر کلپنا کو خیال تھا کہ آج بھاگوان رات ہے اسے دیوتاؤں کے حضور جانا چاہیے اور اپنے بھائی کپور کے راجا بن جانے کی پرارتھنا کرنی چاہیے
لہذا اس نے سونے کا طباق نکالا، گھی کے دیے جلا کر طباق میں سجائے ، نہا دھو کر خوب صورت لباس پہنا زلفوں میں خوشبو بسائی اور دیوں کا طباق اٹھا کر راج مندر چلی گئی۔
راجا کرن اس موقع کی تاک میں تھا وہ راج مندر کے ایک جھروکے میں بیٹھا ہر آتے جاتے کو گھور رہا تھا اچانک اس نے دور سے کلپنا کو جگمگاتے ہوئے دیے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے آتے دیکھا تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی
اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کلپنا نہیں بلکہ دیوتاؤں کی انمول تخلیق ہے جو قدم قدم پر ستارے اڑاتی چلی آرہی ہے وہ اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکا بے اختیار مندر سے نکلا اور راستے میں جا کھڑا ہوا جو نہی کلپنا قریب آئی، وہ اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے بولا
کلپنا ! اتنی رات گئے کہاں جارہی ہو؟“
وہ چہچہا کر بولی مہاراج آپ کو معلوم ہے آج دیوالی ہے آپ کی نگاہیں لاکھوں چراغوں کو روشن دیکھ رہی ہیں خود میری ہتھیلی پر دیے جل رہے ہیں میں یہ دیے دیوتاؤں کے چرنوں میں سجانے جا رہی ہوں ۔
راجا نے کہا مگر تم تو خود ایک دیوی ہو ایسی دیوی کہ دیوتا بھی تم پر شار ہو جائیں تمہیں مندر جانے اور پوجا کرنے کی کیا ضرورت ہے تمہیں تو لاکھوں پجاریوں نے اپنے من مندر میں سجا رکھا ہے خود میں بھی تمہارا پجاری ہوں آؤ کہ آج کی رات میرے محل میں بسر کرو
بے باک کلپنا نے حقارت سے ایک قہقہہ مارا اور اٹھلا
کر بولی ۔
مہاراج! آپ جھوٹے ہیں نہ تو میں دیوی ہوں اور نہ آپ پجاری میں کلپنا ہوں اور آپ مہاراج چلتے پھرتے نظر آئیے اب
کلپنا آگے بڑھ گئی راجا کرن شکار کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر جھلا کر رہ گیا لپک کر آگے بڑھا اور کلپنا کی ریشمی
پوشاک تھام کر کھڑا ہو گیا کہنے لگا دیوی جی تمہیں اتنا سنگ دل نہیں ہونا چاہیے تم کیا جانو دل کی لگی کیا ہوتی ہے؟ میں نے جب سے تمہیں دیکھا ہے کوئی رات ایسی نہیں گزری جب میرے ہونٹوں نے تمہارے رخساروں کی سیر نہ کی ہو۔
آسمان پر نگاہ ڈالوزرا لاکھوں تارے چمک رہے ہیں زمین پر نظر کرو، بے شمار دیے جل رہے ہیں آج کی رات کتنی روشن کی ہے میں نے تمہیں بار بار اپنی داسی چندا کے ہاتھ بلوایا مگر تم نہیں آئیں ۔ آؤ کہ آج میری آتما کا اندھیرا دور کر دو
کلپنا ، راجا کرن کی باتیں سن کر اکتا گئی لیکن پھر فوراً ہی اپنی فطرت کے عین مطابق اس کے اندر ایک چلتر کاری چمکی یوں یہ بظاہر اس نے بیزار کن لہجے میں کہا۔
مہاراج! اپنے ہونٹوں کو سی لیجیے آپ تو گجرات جیسی چھوٹی ریاست کے راجا ہیں میں نے تو بڑے بڑے راجاؤں کی محفلیں دیکھی ہیں چتوڑ کا راجا آپ سے زیادہ دولت مند اور طاقتور ہے میں اس کے جھانسے میں نہیں آئی تو بھلا آپ کے جال میں کس طرح آؤں گی؟ اس سے پہلے کہ میری جوتی آپ کی کھوپڑی سجائے یہاں سے غارت ہو جائیے۔
راجا غصے کے مارے بھڑک اٹھا مگر پھر مصلحت جان کر سنبھل کر بولا دیوی جی زور سے نہ بولو اطمینان سے بات کرو تم تو میری بات کا جواب دینے کے بجائے پتھر مار رہی ہو۔
جی ہاں آپ جیسے باؤلے کو پتھر نہ ماروں تو کیا کنکر ماروں؟ اپنی شکل دیکھیے آپ کے بالوں پر سفیدی آ گئی ہے مگر دل کی کالک ابھی تک نہیں گئی آپ کے جبڑے پچکے ہوئے ہیں اور آپ کی بٹن جیسی آنکھوں میں موتیے کا بسیرا ہے مگر آپ کو پریم رچانے کی باتیں سوجھ رہی ہیں میری نظروں سے دور ہو جائیے ورنہ شور مچادوں گی کہ راجا پاپ کرنا چاہتا ہے ۔
راجا کرن خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنی خواب گاہ کی طرف لوٹ گیا
در حقیقت وہ کلپنا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا کیونکہ کلپنا کا بھائی کپور اس کا سب سے زیادہ قابل اور چالاک وزیر تھا فوج کی کمان بھی اس کے ہاتھ میں تھی راجا کو خدشہ تھا کہ کہیں کپور زیادہ طاقتور ہو کر اس کی راجدھانی پر قبضہ نہ کرلے
یہ وہ زمانہ تھا جب سلطان علاؤالدین خلجی کی تلوار موت کی بجلی بن کر سارے ہندوستان پر چمک رہی تھی کپور نے تو راجا کرن کی راجدھانی پر قبضہ نہیں کیا البتہ ایک دن علاؤالدین خلجی نے گجرات پر لرزہ خیز حملہ کیا یوں راجا کرن کے اوسان خطا ہو گئے اس نے فوراً کپور کو طلب کیا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
ترکوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بہارے ہندوستان کی زمین دہل رہی ہے مجھے علاؤالدین خلجی سے اسی دن سے دہشت آتی ہے جب میں نے یہ سنا تھا کہ اس نے اپنے چچا جلال الدین خلجی کو خجر کھوپ کر قتل کر دیا ہے کپور نے راجا کی تائید کی اور کہا جی ہاں مہاراج جی علاؤ الدین خلجی واقعی خطر ناک انسان ہے
میں نے اس کی سنگ دلی کے چرچے سنے ہیں مسلمانوں کے ہاں رمضان کا مہینہ بہت مقدس مانا جاتا ہے بڑے سے بڑا پاپی مسلمان بھی رمضان میں برت رکھتا ہے اور کسی کو کوئی اذیت نہیں پہنچا لیکن علاءالدین خلجی مہا پاپی ہے اس نے الہ آباد میں عین رمضان کے مہینے میں اپنے محسن چچا کو موت کے گھاٹ اتار دیا
یہی نہیں مہاراج! جلال الدین خلجی نہ صرف علاؤالدین خلجی کا چچا تھا بلکہ اس کا سسر بھی تھا اس نے اپنی خوب صورت بیٹی سے علاؤ الدین کی شادی خود کی تھی میری معلومات کے مطابق علاءالدین خلجی نے اپنی بیوی کو ایک دن بھی سکھی نہیں رکھا جلال الدین خلجی اور اس کی بیگم دونوں اپنی بیٹی کی مصیبت پر رنجیدہ تھے
خاص طور پر علاؤالدین کی ساس نے اسے بہت سمجھایا مگر اس پاپی نے اپنی ساس کو طمانچے مار مار کر نڈھال کر دیا
رام مہاراج رام رام ! علاء الدین مہا پاپی ہے کپور اپنے گالوں پر طمانچے مارنے لگ گیا
راجا کرن پریشان ہو کے بولا لیکن یہ کمبخت ہماری راجدھانی پر کیوں چڑھ دوڑا؟ میں نے تو سنا تھا کہ وہ چتوڑ کی رانی پدمنی کے عشق میں پاگل ہو گیا ہے ۔
کپور جواب میں بولا مہاراج ! میں نے آپ سے ابھی عرض کی کہ تھی ناں علاؤالدین خلجی نے اپنی بیوی کو بہت ستایا ہے وہ ہر خوبصورت عورت کو دیکھ کر لٹو ہو جاتا ہے جبکہ اڈ کی بیوی آہیں بھرتی رہتی ہے اسی بنا پر تو جلال الدین خلجی اس سے عاجز آ گیا تھا ۔
راجا کرن بولا کہیں اس کمبخت نے ہماری کسی رانی کے حسن کا چرچا تو نہیں سن لیا ؟؟؟
کپور بولا میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ یہ یقین ضرور دلاتا ہوں کہ میں صبح اپنا لشکر لے کر علاؤالدین ( جاری ہے )
Hello. . don-rem.ru
https://don-rem.ru
https://don-rem.ru zwz4967494