Faiz Ahmed Faiz poetry in Urdu is highly popular among Urdu literature lovers. Everyone enjoys reading his poetry in Urdu. At Poetry and Quotes, you’ll find the best and most extensive collection of Faiz Ahmed Faiz’s Shayari in Urdu.
Faiz Ahmed Faiz Ghazal
تری امید ترا انتظار جب سے ہے

تری امید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہوا ہے جب سے دل ناصبور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے
کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربندِ اُصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بُھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم ہمیں نے طلب کی، بُرا کیا
ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیِ تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیِ مئے ایّام، ورنہ فیض
ہم تلخیِ کلام پہ مائل ذرا نہ تھے
اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے

اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے
جو قاتل تھے مقتول ہوئے جو صید تھے اب صیاد ہوئے
پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس
سارے بوٹے پتہ پتہ روش روش برباد ہوئے
پہلے بھی طواف شمع وفا تھی رسم محبت والوں کی
ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصورؔ ہوئے فرہادؔ ہوئے
اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا
اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے
فیضؔ نہ ہم یوسفؔ نہ کوئی یعقوبؔ جو ہم کو یاد کرے
اپنی کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
دشنام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
اے جان جاں یہ حرف ترا نام ہی تو ہے
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دست فلک میں گردش تقدیر تو نہیں
دست فلک میں گردش ایام ہی تو ہے
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے
بھیگی ہے رات فیضؔ غزل ابتدا کرو
وقت سرود درد کا ہنگام ہی تو ہے
Faiz Ahmed Faiz Best Gazal Ever
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
Famous Gazal of Faiz Ahmed Faiz
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی
کسی طرح تو جمے بزم مے کدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدۂ فردا کی گفتگو ہی سہی
دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیضؔ ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی
ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے
ہم مسافر یوں ہی مصروف سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہوگا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیضؔ آتے ہیں رہ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
Faiz Ahmed Faiz Sad Gazal
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
حسن مرہون جوش بادۂ ناز

حسن مرہون جوش بادۂ ناز
عشق منت کش فسون نیاز
دل کا ہر تار لرزش پیہم
جاں کا ہر رشتہ وقف سوز و گداز
سوزش درد دل کسے معلوم
کون جانے کسی کے عشق کا راز
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
ہو چکا عشق اب ہوس ہی سہی
کیا کریں فرض ہے ادائے نماز
تو ہے اور اک تغافل پیہم
میں ہوں اور انتظار بے انداز
خوف ناکامئ امید ہے فیضؔ
ورنہ دل توڑ دے طلسم مجاز
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب

یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخر شب
صبح پھوٹی تو وہ پہلو سے اٹھا آخر شب
وہ جو اک عمر سے آیا نہ گیا آخر شب
چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخر شب
کون کرتا ہے وفا عہد وفا آخر شب
لمس جانانہ لیے مستیٔ پیمانہ لیے
حمد باری کو اٹھے دست دعا آخر شب
گھر جو ویراں تھا سر شام وہ کیسے کیسے
فرقت یار نے آباد کیا آخر شب
جس ادا سے کوئی آیا تھا کبھی اول شب
اسی انداز سے چل باد صبا آخر شب
Faiz Ahmed Faiz 2 Line Poetry
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
Faiz Ahmed Faiz Nazm
This widely popular poem is the first poem of the second section of Naqsh-e-Faryadi, and it holds special significance because Naqsh-e-Faryadi is considered the book that gave Faiz Ahmed Faiz’s literary identity an extraordinary maturity. The unique blend of lyrical beauty (ghazal) and protest that characterizes his poetry begins with this very poem. At the beginning of this section, Faiz also references Nizami with the line:”Dil ba-frookhtam, jaan kharidam” (“I sold my heart and bought a soul)
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے
اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
Conclusion
The poetic stature of Faiz can be gauged from the fact that his name is mentioned alongside legendary poets like Ghalib and Iqbal. His poetry, even during his lifetime, transcended borders, languages, ideologies, and beliefs, earning him global fame. The international recognition of modern Urdu poetry is largely credited to him.
His voice emerged as a powerful expression of the human conscience of his era — in the form of soul-stirring revolutionary songs, melodious odes of beauty and love, and protest anthems against oppression and exploitation. Lyricism and optimism are distinguishing features of Faiz’s poetry. The conflict between dreams and realities, hopes and disappointments, lends depth and complexity to his verses.
His love transforms into compassion and takes the shape of humanism, which then arises as a dream for a better world. His words and metaphors possess a unique charm, ecstasy, and multi-dimensionality. It would not be wrong to say that Faiz founded a new school of poetry.
For his literary contributions, Faiz received unprecedented international acclaim and honors. In 1962, the Soviet Union awarded him the Lenin Peace Prize, which, in the bipolar world of that time, was considered an alternative to the Nobel Prize.
Shortly before his death, he was also nominated for the Nobel Prize. In 1976, he was awarded the Lotus Prize for Literature, and in 1990, the Government of Pakistan honored him with the country’s highest civilian award, Nishan-e-Imtiaz. Later, the year 2011 was declared the “Year of Faiz.”